
کیااردوتیزی سےمعدوم ہورہاہے؟
ہمارےموجودہ معاشرےمیں اردوزبان کا جس طرح کشت وخون شروع ہوچکاہے اندازہ ہےکہ چنددہائیوں میں یہ شائستہ زبان اختتام پذیر ہو جائے گی.
بچہ جب اپنی قومی زبان میں علم حاصل کرتا ہے
تو اسے سمجھ کر پڑھتا اور سیکھتا ہے جب کہ غیر زبان میں رٹے لگا کر صرف ڈگری حاصل کرسکتا ہے تعلیم نہیں اور جس زبان میں تعلیم حاصل کرتا ہے اس زبان میں دوسری کتابیں بھی زیادہ شوق سے پڑھتا ہے جو یقینًا ترقی کی منازل طے کرنےمیں اسکی معاونت کرتی ہیں.
دوسری بات جو نہایت اہم ہے
اگر خدانخواستہ اردو زبان تُرکی کی طرح ناپید ہو گئی تو دین اسلام کےعلم کا بڑا ذخیرہ ضائع ہونے کا اندیشہ ہے جو کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ اردو زبان میں ہے. رہی بات عربی زبان کی یہ بات درست ہے کہ عربی ہماری دینی زبان ہے اور ہمیں انگریزی کی نسبت عربی زبان کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے.
بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی
ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس خطہ میں اسلامی علوم کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اردو زبان میں موجود ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن قوتیں اردو کو ختم کرنا چاہتی ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی ہیں کسی بھی قوم کی زبان ان کی تہذیب، تمدن، معاشیات ، معاشرت اور اخلاقیات کی آئینہ دار ہوتی ہے،اسی لیئے وہ ہمیں اپنے انگریزی سپیلنگ (حروف تہجی) میں رومن اردو پر کھینچ کھانچ کر لا رہے ہیں۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا تھا
دشمن سے انکی تہذیب و تمدن چھیننا ہے تو ان سے ان کی زبان چھین لو اور دجالی استعمار آج بھی اسی فارمولے پر کار بند ہے. تبھی تو وہ ہمیں انگلش میڈیم کی آڑمیں تعلیمی بہتری کے نام پر انگریزی کو پروان چڑھانے اور اردو کو ختم کرنے کے لیے کروڑوں اور اربوں روپے کی امداد دیتے ہیں، تاکہ ہمارا بچہ اپنی زبان کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب و تمدن سے بیگانہ ہو جائے. آج ہماری کوئی دکان کوئی ادارہ کوئی ٹریفک بورڈ حتی کہ ہمارا قانون تک غیر زبان میں ہے اس سے زیادہ ذلت اور پستی کی حد بھی کوئی ہوسکتی ہے.
آپ نے ترکی کا حال نہیں دیکھا؟
انہوں نے صرف عربی رسم الخط چھوڑ کر رومن اسلوب کو اپنایا اور پوری قوم گمراہی اور آوارگی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گر گئی تھی. مگر جب انہیں اپنی غلطی کا ادراک ہوا اور وہ اپنی زبان کی طرف متوجہ ہوئے تو آج ان میں ایک بار پھر دجالی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات پیدا ہوچکی ہے.
کیا یہودیوں کی مثال آپ کے سامنے نہیں ہے؟
دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے تھے پھر سر جوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ ہزاروں سال سے بھولی اپنی زبان کو زندہ کریں اسی میں نجات ہو گی اور آج یہودیوں کی مثال آپ کے سامنے ہے. وہ اپنی زبان کی طرف کیا لوٹے اپنے مذہب کی طرف لوٹ آئے. آج ان کا بچہ بچہ مذہبی ہے. اسکے علاوہ پوری دنیاکی معیشت پر قابض بھی ہوگئے.
ماؤ نے چائینہ میں چینی کو رائج کیا اور آج تک ملک سوشلزم کے نام پر چل رہا ہے.
جرمنی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمن زبان کو مضبوطی سی تھام لیا آج جرمن قوم کی ترقی آپ کے سامنے ہے.
کس کس کی مثال دیں گے جاپان کو دیکھ لیجیے، کیسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں امتیازی حیثیت پاچکاہے.
اور روس کو دیکھیے پورا ملک تتر بتر ہو گیا مگر وہ آج بھی رشین زبان پر قائم ہیں. اور اسی بدولت کمیونزم پر بھی.
جناب عالی!
کسی بھی قوم کی زبان محض ایک بولی نہیں ہوتی, وہ اس کی تہذیب، تمدن، معیشت، معاشرت، رسم و رواج اور ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے بلکہ ان سب چیزوں کو مضبوط کرتی ہے. قومی زبان دین اور مذہب اور مذہبی نظریات کو استقامت بخشتی ہے.
آج ہمارے ہاں انگریزی میں ڈوبی برگر فیملی اپنی علیحدہ ہی شناخت رکھتی ہے. دین سے بیزار اور اپنی ثقافت سے کوسوں دور یہ لوگ نہ ” ہی” میں شامل ہیں اور نہ ” شی” میں ،
کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا.
اَنگ ریزی نے سَنگ ریزی کر کر کے ان کے انگ انگ کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے.
حامد انوار
Golden words
بہت شکریہ
Good luck
it’s very interesting I am waiting for your next post 🥰🥰🥰👍👍👍
شکریہ جناب
Waiting for new one