
حضرت طفیل بن عمرو دوسی کا قبول اسلام
حضرت طفیل بن عمرو دوسی مکہ میں آئے یہ قبیلہ دوس کے سردار تھے اور یمن کے نواح میں ان کے خاندان کی شاہانہ حکومت تھی طفیل رضی اللہ تعالی عنہ بذات خود شاعر اور دانش مند شخص تھے، اہل مکہ نے آبادی سے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا اور اعلی پیمانے پر خدمت اور تواضع کی،
طفیل کا اپنا بیان ہے
کہ مجھے اہل مکہ نے یہ بھی بتایا کہ ایک شخص جو ہم میں سے ہے اس سے ذرا بچ کے رہنا وہ جادوگر ہے جادو سے باپ بیٹے بیوی اور شوہر بھائی بھائی میں جدائی ڈال دیتا ہے ہماری جمعیت کو پریشان اور ہمارے نام ابتر کر دیے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ تمہاری قوم پر بھی ایسی ہی کوئی مصیبت پڑے اس لیے ہماری پرزور نصیحت ہے کہ اس کے پاس جانا نہ اس کی بات سننا اور نہ خود بات چیت کرنا،
یہ باتیں انہوں نے ایسی عمدگی سے میرے ذہن نشین کر دیں
کہ جب میں کعبہ میں جانا چاہتا تو اپنے کانوں کو روئی سے بند کر لیتا تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کانوں کے سوراخوں کوبھی نہ چھوئے ایک روز میں صبح ہی خانہ کعبہ گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے چونکہ خدا کی مشیت یہ تھی کہ ان کی آواز میری سماعت تک ضرور پہنچے اس لئے روئی ٹھونسنے سے پہلے میں نے سنا کہ ایک نہایت عجیب کلام وہ پڑھ رہے ہیں،
اس وقت میں اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا
کہ میں خود شاعر ہوں عالم ہوں اچھے برے کی تمیز رکھتا ہوں پھر کیا وجہ ہے اور کونسی روک ہے کہ میں اس کی بات نہ سنو اچھی بات ہوگی تو ماننے میں کیا حرج ہے اور اگر اچھی نہ ہوئی تو ترک کر دوں گا میں یہ ارادہ کر کے ٹھہر گیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھر کو چلے تو میں بھی پیچھے پیچھے ہو لیا،
جب مکان پر حاضر ہوا تو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا واقعہ مکہ میں آنے لوگوں کے بہکانے اور کان بند کر کے رہنے اور آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کچھ سن پانے کا بتایا اور عرض کیا مجھے اپنی بات سنائیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھنا شروع کیا اللہ کی قسم میں نے ایسا پاکیزہ کلام کبھی نہ سنا تھا جو اس قدر نیکی اور انصاف کی ہدایت کرتا ہو طفیل اسی وقت مسلمان ہو گئے رضی اللہ تعالی عنہ۔
(سیرت ابن ہشام جلد1)