
یہ اسلام کے ابتدائی دور کی بات ہے
جب حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اس دور میں اسلام قبول کرنا مکہ میں ایسا خطرناک جرم سمجھا جاتا تھا،جس کی سزا میں جان و مال گھربار ہر چیز سے محروم ہونا پڑتا تھا،
لیکن خباب نے اس کی بالکل پرواہ نہ کرتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اسکا اظہار بھی کیا، یہ چونکہ غلام تھے لہٰذا مکہ میں کوئی بھی ان کا آسرا و مددگار نہیں تھا،
اس لیے ظالم کفار نے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے ان کو بڑی درد ناک سزائیں دیتے تھے، ننگی پیٹھ، دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹاکر اوپر ایک وزنی پتھر رکھ دیتے اور ایک کافر اوپر سے دباکر دائیں بائیں روندتا،
خباب رضی الله عنہ اس وقت تک ان انگاروں پر جلتے رہتے، جب تک زخموں کا خون اور رطوبت نکل کر آگ کو بُجھا نہ دیتی، لیکن اس ظلم کے باوجود ان کی زبان کلمہ حق کہنے سے نہ رُکتی، الله کریم ان پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے،
پیارے آقاﷺ رحمت للعالمین
ایسی کرب ناک حالت میں ان کی ہمدردی فرماتے اور حوصلہ دیتے جبکہ خباب کا مالک اتنا پتھردل اور ظالم تھا کہ وہ ان کے لیے اتنی سی ہمدردی بھی برداشت نہ کر سکا،
اور اس کی سزا میں لوہا آگ میں تپا کر اس سے ان کا سر داغنا شروع کردیا، خباب نے آنحضرت ﷺ سے عرض کی کہ میرے لیے الله کے حضور دعا فرمائیے کہ وہ مجھے اس عذاب سے نجات دے، آپ نے دعا فرمائی کہ یا الله خباب کی مدد فرما،
اتنی ظالمانہ سزاؤں اور ظلم و ستم
سے بھی جب کفار کا کلیجہ ٹھنڈا نہ پڑا تو مالی نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے لگے، عاص بن وائل نامی کافر ان کا مقروض تھا، جب یہ اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتے تو جواب دیتا کہ جب تک محمدﷺ کا دین نہ چھوڑدو گے، اس وقت تک کچھ نہیں مل سکتا،
یہ جواب دیتے کہ جب تک تم مرکر دوبارہ زندہ نہ ہوگے میں آقا ﷺ سے الگ نہیں ہو سکتا وہ کہتا اچھا تو جب میں مرکر پھر زندہ ہوں گا اور مجھ کو مال اور اولاد ملے گی، اس وقت تمہارا قرض دے دوں گا۔